مندرجات کا رخ کریں

مہدی عباسی

ویکی شیعہ سے
مہدی عباسی
کوائف
ناممحمد بن عبداللہ
لقبمہدی
والدمنصور دوانیقی
اولادہادی عباسی، ہارون الرشید
حکومت
سمتسومین خلیفہ عباسی
سلسلہبنی عباس
آغاز158 یا 159ھ
انجام16ھ
معاصرامام کاظم
اہم اقداماتروم اور بر صغیر پر لشکر کشی
قبل ازہادی عباسی
بعد ازمنصور دوانیقی


محمد بن منصور، (126-169ھ) مہدی عباسی کے نام سے معروف بنی عباسی کا تیسرا حاکم ہے۔ مہدی عباسی سفاح و منصور دوانیقی کے بعد حکومت پر قابض ہوا اور امام کاظمؑ کا ہم عصر تھا۔ وہ سنہ 158 سے 169ھ تک بر سر اقتدار رہا۔ بعض مورخین معتقد ہیں کہ مسئلہ مہدویت اور اس کے والد منصور دوانیقی کا اپنے آپ کو مہدی موعود کہلوانے کی کوشش اس کو مہدی کا لقب دینے میں مؤثر ہے۔ مہدی عباسی نے سنہ 158 ہجری قمری میں امام کاظمؑ کو بغداد احضار کر کے قید و بند میں رکھا۔

مہدی عباسی اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں شیعوں کو قتل کرنے اور انہیں اذیت و آزار پہنچانے سے منع کرتا تھا۔ اس نے قید و بند میں موجود شیعوں کو آزاد کرایا اور ان کیلئے وظیفہ تک مقرر کیا۔ لیکن بتدریج اس نے شیعوں کی نسبت اپنی سیاست میں تبدیلی لائی۔ اس کے دور حکومت میں بعض تحریکیں چلیں جسے حکومت نے سرکوب کیا۔ اس نے کئی مرتبہ روم اور بر صغیر پر لشکر کشی کی۔

زندگی‌ نامہ

محمد بن عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس جو مہدی سے ملقب تھا[1] بنی عباس کے تیسرے خلیفہ تھا اور اس نے سفاح اور منصور دوانیقی کے بعد اقتدار سنبھالا۔[2] وہ سنہ 126 ہجری کو مکہ کے نزدیک حمیمہ نامی مقام پر پیدا ہوا۔[3] اس کے والد منصور دوانیقی نے ان کی تربیت پر خاص توجہ دی اور نوجوانی سے ہی اہم حکومتی مناصب ان کے سپرد کرنا شروع کیا۔[4]

سنہ 147 ہجری قمری کو منصور دوانیقی نے اس کو اپنا ولیعہد مقرر کیا۔[5] وہ ذہانت، جود و کرم اور نرم مزاجی میں زبانزد عام و خاص تھا[6] اور اپنے والد کی موت کے بعد 17 ذی الحجہ سنہ 158 ہجری[7] یا سنہ 159 ہجری[8] کو بر سر اقتدار آیا۔

مہدی عباسی نے اپنے دو بیٹے ہادی اور ہارون کی تربیت اور یکے بعد دیگری اپنا وولیعہد مقرر کیا۔[9] اگرچہ وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں ہادی کی ولیعہدی پر پشیمان تھے لیکن ان کو اس عہدے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوئے۔[10]

مہدی کے لقب سے ملقب ہونا

بنی‌عباس
خلفا
نام مدت سلطنت
ابو العباس سفاح ۱۳۲-۱۳۶
عبداللہ منصور ۱۳۶-۱۵۸
مہدی عباسی ۱۵۸-۱۶۹
ہادی عباسی ۱۶۹-۱۷۰
ہارون رشید ۱۷۰-۱۹۳
محمد امین ۱۹۳-۱۹۸
مامون عباسی ۱۹۸-۲۱۸
معتصم عباسی ۲۱۸-۲۲۷
واثق عباسی ۲۲۷-۲۳۲
متوکل عباسی ۲۳۲-۲۴۷
منتصر عباسی ۲۴۷-۲۴۸
مستعین عباسی ۲۴۸-۲۵۲
معتز عباسی ۲۵۲-۲۵۵
مهتدی عباسی ۲۵۵-۲۵۶
معتمد عباسی ۲۵۶-۲۷۸
معتضد عباسی ۲۷۸-۲۸۹
مکتفی ۲۸۹-۲۹۵
مقتدر ۲۹۵-۳۲۰
قاهر ۳۲۰-۳۲۲
راضی ۳۲۲-۳۲۹
متقی ۳۲۹-۳۳۳
مستکفی ۳۳۴-۳۳۳
مطیع ۳۳۴-۳۶۳
طائع ۳۶۳-۳۸۱
قادر ۳۸۱-۴۲۲
عبدالله قائم ۴۲۲-۴۶۷
مقتدی ۴۶۷-۴۸۷
مستظهر ۴۸۷-۵۱۲
مسترشد ۵۱۲-۵۲۹
منصور راشد ۵۲۹-۵۳۰
مقتفی ۵۳۰-۵۵۵
مستنجد ۵۵۵-۵۶۶
مستضی ۵۶۶-۵۷۵
الناصر لدین الله ۵۷۵-۶۲۲
ظاهر ۶۲۲-۶۲۳
مستنصر ۶۲۳-۶۴۰
مستعصم ۶۴۰-۶۵۶
وزرا و امرای سرشناس
ابومسلم خراسانیابوسلمہ خلالیحیی بن خالد برمکیفضل بن یحیی برمکیجعفر بن یحیی برمکیحمید بن قحطبہ طائیعلی بن عیسی بن ماہانفضل بن ربیعفضل بن سہلطاہر بن حسین
ہم عصر شخصیات
جعفر بن محمدصادقموسی بن جعفر کاظمعلی بن موسی رضامحمد بن علی جوادعلی بن محمد ہادیحسن بن علی عسکریم ح م د بن الحسن المہدی
اہم واقعات
محمد نفس زکیہ کا قیامواقعہ فخ

معاصر محققین کے مطابق محمد بن منصور کے لئے مہدی کا لقب لوگوں کی حمایت حاصل کرنے[11] اور نفس زکیہ کی طرف سے مہدویت کے ادعا کا مقابلہ کرنے کیلئے دیا گیا تھا۔[12] اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ بنی عباس نے مہدی عباسی کو پیغمبر اکرمؐ کی احادیث میں ذکر شدہ مہدی موعود کے طور پر پیش کرنے کی بہت زیادہ کوشش کیں تاکہ اس طریقے سے وہ لوگوں کی حمایت حاصل کر سکیں یوں عباسی حکومت کی بینادوں کو مستحکم کر سکیں۔[13]

وفات

مہدی عباسی سنہ 166 ہجری[14] یا سنہ 169 ہجری[15] کو دس سال کی خلافت کے بعد منطقہ ماسبذان[16] (موجودہ ایلام) میں روذ نامی گاؤں میں وفات پائی۔[17] اس کو زہر دے کر قتل کئے جانے یا ہرن کے شکار کیلئے تمرین کے دوران وفات پانے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[18]

امام کاظمؑ کے ساتھ رویہ

مہدی عباسی نے امام کاظمؑ کو سنہ 159 ہجری میں مدینہ سے بغداد بلا کر قید کیا۔[19] اس کے کچھ مدت بعد شیعوں کے ساتویں امام حکومت کے خلاف قیام نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد زندان سے رہا ہوئے اور مہدی عباسی کی حکومت کے آخری ایام تک آپؑ حکومت کے تحت‌ نظر رہے۔[20] اس کے بعد امام کاظمؑ نے اپنے پیروکاروں کو تقیہ کرنے کی سفارش فرمائی۔[21]

اگر چہ بعض معاصر محققین امام صادقؑ کی شہادت کی بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہونے والے انتشار کو امام کاظمؑ کی کمزور مدیریت اور آپ کے دور میں شیعوں کی طرف سے آپ کے حکم کے پر تقیہ کی روش اپنانے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[22] اسی بنا پر عباسی حکومت نے امام کاظمؑ اور آپ کے پیروکاروں کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔[23] لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تر اقدامات کے باوجود دوسرے شیعہ فرقوں کے پیروکار امام کاظم کے پیروکاروں کے ساتھ ملحق ہوتے رہے یوں فرقہ امامیہ دوسرے شیعہ فرقوں سے زیادہ مقتدر اور مؤثر تھا اسی بنا پر مہدی عباسی نے شیعوں کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کے امام کو زندان میں قید رکھا۔[24]

شیعوں کے ساتھ رویہ

مہدی عباسی نے شروع میں لوگوں کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔[25] انہوں نے اپنے والد منصور دوانیقی کے دور حکومت میں جمع شدہ دولت جسے اکثرا عام لوگوں خاص کر شیعیان حیدر کرار کے اموال کو مصادرہ کرنے کے ذریعے جمع آوری کی گئی تھی، ان کے صاحبان اصلی کو واپس کرنے کے ذریعے لوگوں کو راضی کرنے کی کوشش کی۔[26] شروع میں وہ شیعیان حیدر کرار کے قتل اور انہیں اذیت و آزار پہنجانے سے منع کرتے ہوئے ان کے قیدیوں کو آزاد کرا دیا[27] اور انہیں حکومت کی طرف سے باقاعدہ وظیفہ بھی مقرر کیا۔[28] لیکن بتدریج اس نے شیعوں کی نسبت اپنی سیاست میں تبدیلی لائی اور ان کے گرد دائرہ تنگ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ انہیں اذیت و آزار رسانی کا عمل بھی شروع ہوا۔[29]

مہدی عباسی نے اقتدار سنبھانے کی بعد داخلی سیاست میں بعض اہم اقدامات اٹھائے جس سے معاشرے میں نسبتا لوگ آرام و راحت اور امن و سکون کا احساس کرنے لگے۔[30] اسی بنا پر بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ ان کی حکومت بنی عباس کے پہلے حکمرانوں کی سختی اور ظلم و بربریت سے ان کے بعد والی حکمرانوں کے اعتدال اور نرم مزاجی کی طرف منتقلی کا نقطہ آغاز ہے۔[31]

بغاوتوں کی سرکوبی اور روم اور برصغیر پر لشکر کشی

مہدی عباسی کے دور حکومت میں حکومت مخالف بعض تحریکیں اور بغاوتیں شروع ہوئی۔ سب سے پہلے انہوں نے زنادقہ کی تحریک جو روز بروز پھیلتی چلی جار رہی تھی کا مقابلہ کیا۔[32][یادداشت 1]

خراسان میں سنہ 160 ہجری کو مقنع[33] اور یوسف برم کی شورش،[34] شام میں سنہ 161 ہجری میں عبداللہ بن مروان کی شورش [35] اور سنہ 162 ہجری میں عبدالسلام یشکری کی قیادت میں خوارج کی شورش[36] مہدی عباسی کی دور حکومت میں شروع ہوئی اور اس نے ان سب بغاوتوں اور تحریکوں کو سرکوب کیا۔[37]

مہدی عباسی نے روم پر کئی بار لشکر کشی کی۔ سنہ 159 ہجری میں عباس بن محمد کو ایک عظیم لشکر کے ساتھ بلاد روم کی طرف بھیجا جس نے بر صغیر میں آنقرہ تک پیش قدمی کی۔[38] اسی طرح سنہ 165 ہجری میں اپنے بیٹے ہارون الرشید کی قیادت میں ایک بہت بڑا لشکر روم کی طرف بھیجا جو خلیج قسطنطنیہ تک پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہوا۔[39] اسی طرح اس نے سنہ 160 ہجری میں سمندری راستے ایک لشکر بر صغیر کی طرف روانہ کیا جس نے شہر باربد کو محاصرے کے بعد فتح کیا۔[40]